پاکستان: مولانا طارق جمیل کے علاقے میں توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص کا قتل، لاش جلانے کی کوشش

 

رانا تنویر

خانیوال کے علاقے تلمبہ میں جہاں مولانا طارق جمیل بھی رہتے ہیں، سینکڑوں لوگوں کے ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص کو قتل اور لاش کو آگ لگانے کی کوشش کی۔

تلمبہ پولیس سٹیشن کے محمد ارشد کلرک نے دی ریلجن آبزرور کو بتایا کہ 17 موڑ کے علاقے میں مشتعل ہجوم نے اسے گھسیٹ کر اور ڈنڈے مار مارکر جان سے مارڈالا۔ انہوں نے کہا کہ ہجوم نے ان پر علاقے کی مسجد میں داخل ہونے اور قرآن کے اوراق جلانے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک اس شخص کی شناخت نہیں ہو سکی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کا تعلق اس علاقے سے نہیں ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 17 موڑ حسین پور (رئیساں والا) سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں معروف دیوبندیہ عالم مولانا طارق جمیل کا تعلق ہے۔

 علاقے تلمبہ میںکے علاقے تلمبہ میں جہاں مولانا طارق جمیل بھی رہتے ہیں، سینکڑوں لوگوں کے ہجوم نے توہین مذہبی راہلماؤں کے علاقے میں ایسے واقعات کا ہونا ان علما کی تعلیمات پر سوالیہ لشان اٹھاتے ہیں۔

متاثرہ کو بچانے کی کوشش میں مختلف پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میاں چنوں صدر تھانے کے ایس ایچ او اقبال شاہ زخمی پولیس اہلکاروں میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریجنل پولیس آفیسر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جائے حادثہ پر پہنچ گئے ہیں اور حالات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس کہانی کے ساتھ پوسٹ کی گئی ویڈیو میں لوگوں کو اسے آگ لگانے کے لیے کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے جب کہ کچھ لوگ انھیں روک رہے تھے۔ تاہم یہ رپورٹ درج ہونے تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ آیا لاش کو آگ لگائی گئی تھی۔

دو ماہ قبل دسمبر میں ایک ہجوم نے پاکستان کے ضلع سیالکوٹ میں ایک فیکٹری کے سری لنکن مینیجر کو قتل کر دیا تھا۔ ملک کے متنازعہ توہین رسالت قانون کی وجہ سے پاکستان میں اس طرح کے معاملات کو ’جواز‘ ملتا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست میں توہین مذہب کے خلاف بدنام زمانہ توہین مذہب کے سخت قوانین ہیں، جن میں سزائے موت ہے۔ قوانین کو اکثر مذہبی اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور ان ملزمان کو بعض اوقات عدالت میں جانے سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے۔ توہین مذہب کے مقدمات کے ارد گرد خوف کے کلچر کا مطلب ہے کہ جج اکثر ملزم کو قصوروار ٹھہرانے کے علاوہ کوئی اور چیز تلاش کرنے سے ڈرتے ہیں۔

پاکستان کے سب سے زیادہ بدنام زمانہ توہین رسالت کے کیسوں میں سے ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا ہے، جسے 2010 میں اس کے ساتھی کارکنوں کی جانب سے توہین مذہب کا الزام لگانے کے بعد موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ تقریباً ایک دہائی کے بعد اسے شدید بین الاقوامی دباؤ کے بعد بری کر دیا گیا۔

 

Share

Rana Tanveer

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *