جنات بابا کی درگاہ پر زعفرانی رنگ کرنے کا واقعہ، ہندو عقیدت مندوں کا احتجاج
انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک درگاہ میں توڑ پھوڑ اور قبر اور گنبد کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کا واقعہ پیش آیا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق اس درگاہ کے عقیدت مندوں میں مسلمانوں کے علاوہ مقامی ہندو آبادی بھی شامل ہے۔
یہ واقعہ ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع نرمدا پورم میں پیش آیا جو ریاست کے دارالحکومت بھوپال سے تقریبا 100 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
گاؤں کے رہائشی شاہ رخ منصوری کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق سنیچر اور اتوار کی درمیانی رات کو ’جنات بابا‘ نامی اس درگاہ میں نامعلوم افراد نے گھس کر توڑ پھوڑ کی اور ہر جگہ زعفرانی (سیفران) پینٹ کر دیا۔ یاد رہے کہ زعفرانی رنگ کو ہندوتوا نظریے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق یہ درگاہ نرمدا پور کے ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریبا 40 کلومیٹر دور واقع ہے۔ نرمدا پور کو پہلے ہوشنگ آباد کے نام سے جانا جاتا تھا۔
’درگاہ کے دروازے بھی توڑ دیے گئے‘
سید اشرف کا خاندان 50 سال پرانی اس درگاہ کی حفاظت اور نظامت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’درگاہ جس ہائی وے پر ہے وہ کافی مصروف سڑک ہے۔ صبح صبح جب گاؤں کے چند نوجوان اُدھر سے گزرے تو انھوں نے دیکھا کہ درگاہ کو زعفرانی رنگ سے پینٹ کر دیا گیا ہے۔‘
اس کیس میں ایف آئی آر درج کروانے والے شاہ رخ منصوری کے مطابق اُن کو اتوار کی صبح تقریباً آٹھ بجے معلوم ہوا کہ جنات بابا کی درگاہ میں نامعلوم افراد نے توڑ پھوڑ کی ہے۔ ان کی درخواست کے مطابق درگاہ پر نصب چاند اور درگاہ کے دروازے بھی ایک قریبی ندی سے ملے ہیں۔
مقامی رہائشی سید اشرف علی کے مطابق یہ درگاہ ریاستی ہائی وے اور مارو دریا کے قریب ہے اور یہاں سے قریبی آبادی کم از کم آدھا کلومیٹر دور ہے۔
درگاہ کے مرید ہندوؤں نے بھی احتجاج کیا
سید اشرف کا قیاس ہے کہ یہ معاملہ رات تین سے چار کے درمیان پیش آیا۔ انھوں نے کہا کہ ’وہاں ہندو مذہب کے لوگ بھی رہتے ہیں جو خود بھی درگاہ کے مرید ہیں۔‘
منصوری کے مطابق اس علاقے میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں ہمیشہ سے ہم آہنگی رہی ہے اور غالباً سیاسی فائدے کے لیے درگاہ کی بے حرمتی کی گئی۔
منصوری بتاتے ہیں کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران اس ضلع میں یہ تیسرا واقعہ ہے جس میں مسلمانوں کے کسی مذہبی مقام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس درگاہ کی توسیع کے لیے مقامی ہندوؤں نے بھی اپنی زمینیں وقف کی تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں مسلمانوں سے زیادہ ہندو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ مقامی ہندوؤں نے اس کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج میں حصہ بھی لیا۔‘
سید اشرف بتاتے ہیں کہ مقامی انتظامیہ نے شروع میں کارروائی نہیں کی جس کے بعد مقامی افراد نے ہائی وے پر احتجاج کا فیصلہ کیا اور سڑک ٹریفک کے لیے بند کر دی گئی۔
ان کے مطابق گاؤں والوں کے احتجاج کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی، ایف آئی آر درج ہوئی اور فی الحال درگاہ پر پولیس تعینات ہے۔
’یہ مقامی لوگوں کا کام نہیں‘
مکھن نگر تھانے کے ٹاؤن انسپکٹر ہیمنت سریواستو نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ’ہم نے ایف آئی آر درج کر لی ہے لیکن ہماری ترجیح درگاہ کو دوبارہ کھولنا ہے، جو کہ اب ہو چکا ہے۔‘
پولیس نے دعویٰ کیا کہ ملزمان کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ ٹاون انسپکٹر کا کہنا ہے کہ ’پہلی نظر میں ایسا نہیں لگتا کہ یہ کام مقامی نوجوانوں نے کیا ہو گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ہندو مسلمان دونوں برادریوں کے لوگ یہاں پُرامن طریقے سے رہتے ہیں اور یہاں پہلے کبھی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں ہوئی۔
اس دوران گاؤں والوں نے درگاہ پر ایک بار پھر پرانا رنگ کر دیا ہے اور اب وہ ان ملزمان کی گرفتاری کے منتظر ہیں جنھوں نے جنات بابا کی درگاہ میں توڑ پھوڑ اور رنگ کیا۔
Courtesy: BBC Urdu