جماعت احمدیہ نے کمسن بچے سے جنسی زیادتی کے مرتکب راہنما کا اخراج کر دیا
جماعت احمدیہ نے امریکہ میں بچوں سے زیادتی پر سزا پانے والے سابق راہنما اور استاد منیب الرحمٰن کا اخراج کر دیا ہے جس کا اعلان جمعہ کے اجتماع کے دوران ڈیلس کی احمدیہ مسجد میں کیا گیا۔
اعلان کے دوران اصل وجہ نہیں بتائی گئی بلکہ صرف یہ کہا گیا کہ منیب الرحمٰن کے ایک مجرمانہ مقدمے میں ملوث ہونے کی بنیاد پر اخراج کیا گیا ہے۔
منیب کو اس سال 7 اگست کو اس وقت ساڑھے چھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جب اس نے اپنی مذہبی کمیونٹی کے ایک نابالغ لڑکے سے متعدد بار زیادتی کرنے کا اعتراف کیا۔
جماعت کو مجرم منیب کے خلاف اندرونی کارروائی کرنے میں چار سال سے زیادہ کا عرصہ لگا کیونکہ اس نے پہلی بار 2018 میں نابالغ لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی جس کا سلسہ 2020 تک جاری رہا۔ اسے 11 مئی 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا، اور اس کے بعد بھی جماعت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کے بجائے متاثرہ فیملی پر الزام تراشی کی مہم شروع کی گئی جو اب بھی جاری ہے۔
بعد ازاں، منیب کو 100,000 ڈالر کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ 25 مئی کو عدالت میں پیش نہ ہونے پر اس کی ضمانت منسوخ کر دی گئی اور ضمانتی مچلکے ضبط کر لیے گئے اور ااسکو مفرور قرار دے کر وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔ بالآخر اسے 5 جون کو گرفتار کر لیا گیا۔مگر جماعت پھر بھی یہ سمجھتی رہی کہ اسے جھوٹے الزام میں پھنسا کر جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جمعہ 5 اگست کو ڈینٹن کاؤنٹی کی جج شیری شپ مین نے منیب کو جرم قبول کرنے پر ساڑھے چھ سال قید کی سزا سنائی۔
اب جماعت احمدیہ کے رہنما مرزا مسرور احمد کے 26 ستمبرتا 17 اکتوبر کے دوران امریکہ کے طے شدہ دورے سے قبل، منیب کو جماعت سے نکال دیا گیا ہے۔
امریکہ میں مقیم ایک احمدی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ریلجن آبزرور کو بتایا کہ جماعت احمدیہ کمیونٹی کے اندرونی معاملات کو ریاستی اداروں تک لے جانے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے ”نظام جماعت” کے لیے ایک چیلنج سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احمدیوں کو اپنے اندرونی معاملات کا حل جماعت کے سیٹ اپ میں تلاش کرناہوتا ہے چاہے اس حال میں کئی سال لگیں اور نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ چونکہ جماعت کا نظام اندرونی درجہ بندی کی متعدد تہیں ہونے کے باعث ایک موئثر کنٹرول کا حامل ہے اس لیئے احمدیوں کی مذہبی طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے معاملات قیادت اور دارالقضاء (جماعت کا داخلی عدالتی نظام) تک لے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ اپنے اندرونی معاملات پولیس یا عدالتوں میں لے جاتے ہیں انہیں جماعت کے نظام کے مخالف سمجھا جاتا ہے اور انکو سخت تنقید اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی معاملہ منیب کے کیس کو عدالت میں لے جانے والے خاندان کے ساتھ بھی ہوا۔ جماعت کی طرف سے کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی ہمدردی کا اظہار کیا۔
نابالغ متاثرہ لڑکے نے ایک بیان میں جماعت کے بارے میں کہا: ”جب مجھے ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو انہوں نے مجھے تنہا چھوڑ دیا۔”
زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے کے والد نے ایک بیان میں کہا کہ ان کا خاندان بے وفائی، غصے اور نقصان کا گہرا احساس محسوس کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھوئی ہوئی عزت اور تحفظ کا احساس کبھی بھی واپس نہیں مل سکتا۔
یہاں تک کہ منیب اور اس کے سپروائزر وقاص حسین، جو منیب کے بہنوئی ہیں، کو انتظامی عہدوں سے ہٹانے کی ان کی درخواست پر بھی جماعت نے کان نہیں دھرا۔ اس کے بجائے، متاثرہ بچے کو معاملہ پولیس تک لیجانے پر اس کی ناظمِ اطفال کی ذمہ داری سے ہٹا دیا گیا۔
منیب کچھ عرصے سے وقاص حسین کی نگرانی معتمد خدام اور استاد کے طور پر کام کر رہا تھے۔ وقاص ڈیلاس کی احمدیہ بیت الاکرام مسجد میں قائد کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
جماعت کی طرف سے اس کے کسی رکن پر عائد کی جانے والی سب سے بڑی سزا اخراج کی سزا ہے۔ جب کسی کا اخراج کر دیا جاتا ہے تو تمام احمدیوں پریہ لازم ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی کاروبار نہ کریں، ان سے کوئی تعلق نہ رکھیں، انہیں تقریب میں نہ بلائیں اور نہ ان کی تقریب میں شرکت ہی کریں۔ یہاں تک کہ کچھ معاملات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ احمدیوں کو خارج کیے جانے والوں کے ساتھ فیس بک دوستی کرنے پربھی جماعت کے نوٹسز کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کہنا جائز ہے کہ بعض صورتوں میں احمدی کا اخراج ایک سماجی موت کے مترادف ہے، جس سے جماعت میں ذہنی صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اخراج کو صرف کمیونٹی کے سربراہ مرزا مسرور احمد ہی معاف کر سکتے ہیں۔