احمدیوں کی عبادت گاہوں کی شکل بگاڑنے کا نیا سلسلہ جاری
پاکستان میں احمدیوں کی مذہبی آزادی کو کم کرنے کی ایک نہ رکنے والی مہم کے علاوہ، ملک کے مختلف حصوں میں تقریباًتین ماہ سے احمدیوں کی مساجد کی بے حرمتی کا ایک بدترین اومنظم سلسلہ جاری ہے۔
احمدی مساجد کی بے حرمتی کے واقعات پورے ملک میں ننکانہ صاحب سے لے کر وزیرآباد تک، فیصل آباد سے شیخوپورہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ تک رونما ہوئے جس کا حالیہ واقعہ بدھ کے روز کراچی میں پیش آیا۔ان میں سے زیادہ تر واقعات ریاستی سرپریستی میں رونما ہوئے۔ کچھ مساجد کو پولیس کی مدد سے مسمار کیا گیا، کچھ کو عدالتی احکامات کے سائے میں نقصان پہنچایا گیا جبکہ باقی کو احمدی مخالف عناصر نے اپنے طور پر ہی مسمار کر دیا گیا۔
گزشتہ روز، تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں نے کراچی میں احمدی مسجد پر حملہ کر کے اس کے میناروں کو مسمار کر دیا جس کے انہدام کا جشن منانے کے لیے ایک بہت بڑا ہجوم نعرے لگا رہا تھا۔ 26 جنوری کو ریاست نے احمدیوں کو حکم دیا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اپنی عبادت گاہ کے مینار ہٹا دیں تاکہ یہ مذہبی جگہ کا تاثر نہ دے۔
22 جنوری کو کچھ شرپسندوں نے فیصل آباد میں احمدیوں کی تقریباً 200 قبروں کی بے حرمتی کی اور انہیں مسمار کر دیا۔ ایک روز قبل سیالکوٹ کے مسلمانوں نے ایک احمدی خاتون کو ایک مشترکہ قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا۔
18 جنوری کو کراچی، مارٹن روڈ پر ایک احمدی مسجد کے دو میناروں کی توڑ پھوڑ کی۔ 10 جنوری کو، وزیر آباد میں، احمدی مخالفین نے پولیس کی مدد سے ایک احمدی مسجد کے میناروں کو ”آئینی مسلمانوں“ کی مساجد سے مختلف بنانے کی کوشش میں گرا دیا۔ چند ہفتے قبل ننکانہ صاحب میں ایک احمدی مسجد کے محراب کو منہدم کر دیا گیا۔ گزشتہ سال 7 دسمبر کو گوجرانوالہ میں احمدیوں کی عبادت گاہ کے مینار ہٹا دیے گئے تھے۔
جب احمدیوں کی بات آتی ہے توان کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ بہت برا ہے۔پاکستان میں احمدیوں کو مسلمانوں جیسا نظر آنا بھی جرم قرار پاتا ہے جیسے احمدیوں کو کھلے عام یا خفیہ طور پر مذہب پر عمل کرنے کی اجازت بھی نہیں۔
پاکستان نے احمدیوں کے لیے اپنے قانونی ضابطوں کا حصہ بنایا ہے کہ وہ اسلام پر عمل نہ کریں، مسلمانوں کی طرح دکھائی دیں اور آئینی مسلمانوں کی مذہبی علامات کو نہ اپنائیں۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 (B) (1d) کے تحت، کوئی بھی احمدی جو اپنی عبادت گاہ کو ”مسجد” کہتا ہے اسے تین سال تک قید کی سزا دی جائے گی اور جرمانہ بھی ہو گا۔ دفعہ 298 (سی) کے مطابق کوئی بھی احمدی جو خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہے یا اپنے عقیدے کو اسلام مماثلت دیتا یا کسی کو اپنے عقیدے کی دعوت کا تبلیغ کرتا ہے اسے جرمانے کے علاوہ تین سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔قانونی ضابطہ کے مذکورہ بالا متنازعہ حصے خود وضاحتی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے منافی ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 20 کہتا ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب اورفرقے کا پرچار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے علاوہ کو اپنے مذہبی اداروں کو قائم کرنے، برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق حاصل ہو گا۔
مذہبی آزادی کی آئینی شق کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے اور احمدیوں سے متعلق PPC کی دفعات کو عوامی جگہوں اور قانونی راہداریوں پر ترجیح دی جاتی ہے، جہاں احمدیوں کی مذہبی آزادی کو سب سے زیادہ مجروح کیا جاتا ہے۔
کہنا جائز ہے کہ پی پی سی کے یہ حصے احمدی مخالف عناصر کی کھلی حمایت کرتے ہیں۔پاکستان میں عام طور پر مذہبی اقلیتوں کو اکثریتی مسلمانوں سے مختلف اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی وجہ سے امتیازی سلوک اور عدم برداشت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ احمدیوں کی صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ انہیں دھمکیوں، حملوں، ٹارگٹ کلنگ، ہجومی تشدد اور ان کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں کی بے حرمتی کا سامنا اکثریت مزہب پر عمل پیراہونے سے کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں عام طور پر مذہبی اقلیتوں کو اکثریتی مسلمانوں سے مختلف اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی وجہ سے امتیازی سلوک اور عدم برداشت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ احمدیوں کی صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ انہیں دھمکیوں، حملوں، ٹارگٹ کلنگ، ہجومی تشدد اور ان کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں کی بے حرمتی کا سامنا اکثریت مزہب پر عمل پیراہونے سے کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اسلام کے مختلف فرقے ایک دوسرے کے خلاف ہیں لیکن احمدیوں کے معاملے میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
سنی مذہبی سیاسی جماعت، تحریک لبیک پاکستان کے عروج کے ساتھ، احمدیوں کے لیے مشکلات بڑھی ہیں۔ پاکستان میں احمدیوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ساتھ یہ کہنا جائز ہے کہ یہ ایک متحرک اقدام ہے جس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ ایک مسجد کی بے حرمتی کو اس طرح کے دیگر واقعات سے جوڑ کر تحقیقات کی جانی چاہیے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تمام واقعات کے پیچھے چندمخصوس چہرے ہیں جو منظم انداز میں احمدیوں کے خلاف عمل پیرا ہیں۔ اگر ریاست ان وحشیانہ واقعات کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کرتی ہے اور جان بوجھ کر انکار کی اپنی معمول کی پالیسی اپناتی ہے تو وہ ایسا کر سکتی ہے لیکن خود کو باقی دنیا سے بیگانگی کی قیمت پر جیسے امارت اسلامیہ افغانستان نے کیا جہاں پاکستان نے لاجسٹک اور اخلاقی طور پر طالبان کی حکومت قائم کرنے میں حمایت کی جسکا خمیازہ پاکستانی عوام کو اب دہشت گردی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔