احمدیوں نے کئی سالوں بعدپر امن احتجاج کا جمہوری حق استعمال کیا
جماعت احمدیہ نے گزشتہ روز چناب نگر میں اپنے ایک تعلیمی ادارے کے پرنسپل کی گرفتاری کے خلاف کئی دہائیوں کے بعد پرامن احتجاج کا حق استعمال کیا۔
جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیم انجمن خدام الاحمدیہ کے درجنوں ارکان چناب نگر تھانے کے سامنے جمع ہوئے اورپولیس کے مبینہ غیر قانونی اقدام کے خلاف نعرے لگائے۔ پولیس اسٹیشن پر احتجاج کے باعث چنیوٹ سرگودھا روڈ پر کئی گھنٹے تک ٹریفک جام رہی۔ ان کا موقف تھا کہ ایف آئی آر میں مبارک احمد کو نامزد نہیں کیا گیا اس لیے ان کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکام سے اسے رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم پولیس نے اسے ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اور اس سے پوچھ گچھ کے لیے دو دن کا جسمانی ریمانڈ لے لیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جماعت احمدیہ نے 1970 کی دہائی سے بالعموم اور 1984سے بالخصوص جب پارلیمنٹ کی جانب سے انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اور پھر انکے کسی بھی اقدام کو جو مسلمانوں سے مشابہہ ہو مجرمانہ فعل قرار دیا گیا، کبھی کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ ان کا خیال ہے کہ ایک چھوٹی سی کمیونٹی ہونے کے ناطے وہ احتجاج کرکے اور اپنے اراکین کی شناخت کو عام کرکے ممکنہ حملوں کا شکار نہیں بنانا چاہتے۔
مبارک کو پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 295B، 298C اور پنجاب ہولی قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2011 کے سیکشن 9-1 کے تحت جون 2022 میں درج ایک ایف آئی آر کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں خالد احمد شاہ، ملک خالد مسعود، مرزا افضال احمد، سلیم الدین اور امت القدوس کو نامزد کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر حسن معاویہ کی شکایت پر درج کی گئی تھی، جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تحفظ ختم نبوت فورم پاکستان کا سیکرٹری جنرل ہے اور پنجاب میں احمدیوں کے خلاف پچھلے آٹھ سالوں سے درج کئی مقدمات کے پیچھے ایک اہم عنصر ہے۔
شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ جماعت احمدیہ کی انتظامیہ نے 07 مارچ 2019 کو مدرستہ حفظ، عائشہ اکیڈمی، چناب نگر میں ایک تقریب منعقد کی، جہاں انہوں نے قرآن پاک کے تحریف شدہ نسخے تقسیم کیے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس تقریب میں تقسیم کیے گئے قرآن پاک کے نسخے پر 2016 میں محکمہ داخلہ پنجاب نے پابندی عائد کر دی تھی۔ شکایت کنندہ نے کہا کہ وہ مبینہ طور پر تبدیل شدہ ترجمے کی گردش کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کی رٹ پٹیشن کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے قبل ازیں متعلقہ اداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ جماعت احمدیہ کے پبلشرز اور دیگر تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔
پاکستان میں مقیم بہت سے احمدی مخالف فورم سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے احمدیوں کے اس احتجاج کو پرتشدد احتجاج کر رنگ دے کر ان کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ تاہم چناب نگر پولیس کے مطابق مظاہرین کی تعداد 150 تھی لیکن انہوں نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا اور نہ کوئی توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے پرامن احتجاج کیا اور چند گھنٹوں کے بعد منتشر ہو گئے۔ جماعت کے بعض ذرائع کے مطابق احتجاج صدرعمومی کی ہدایت پر کیا گیا۔