احمدی مبلغ کا امریکہ میں 5کمسن بچیوں کی پورنوگرافی تیار کرنے، انکو جنسی طور پرحراساں کرنے کا اعتراف

 

کینیڈہ کے رہائیشی احمدی مشنری محمد لقمان رانا (33) نے امریکہ کی رہائیشی کم از کم پانچ نابالغ لڑکیوں کی فحش تصاویراور فلمیں تیار کرنے اور ان کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر پھیلانے کی دھمکی دے کر انہیں جنسی طور پر بلیک میل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
رانا، مختلف آن لائن پلیٹ فارمز پر ‘کنگ چیتا’ کے فرضی نام سے کمسن بچیوں کو جھانسہ دیتا تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ اس نے اپنے متاثرین سے ویب سائٹس Omegle، Tinychat، اور Microsoft کے ای میل پلیٹ فارم پر ملاقات کی۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ متاثرین کو جنسی طور پر اشتعال انگیز طریقوں سے پوز کرنے پر راضی کرتا تھا اور پھر مستقبل میں انہیں جنسی طور پر بلیک میل کرنے کے لیے خفیہ طور پر ریکارڈ کرتا تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ جون 2014 اور جون 2016 کے دوران، اس نے اٹھارہ سال سے کم عمر بچیوں کے ساتھ ہزاروں ای میلزکا تبادلہ کیا جس کے ذریعے وہ انہیں جنسی طور پر بلیک میل کرتا رہا اور اسے لائیو ٹرانسمیشن اور ای میل کمیونیکیشن دونوں کے ذریعے چائلڈ پورنوگرافی کی تصاویر بنا کر بھیجنے پر ورغلا کر تیار کرتارہا۔ رانا نے یہ اعتراف اپنی 11 صفحات پر مشتمل پلی بارگین درخواست میں کیا، جس کی کاپیReligion Observer کے پاس دستیاب ہے، جو میری لینڈ کی ڈسٹرکٹ کورٹ کی جج Paula Xinis کی عدالت میں جمع کرائی گئی۔ دستاویز پر رانا، ان کے وکیل رچرڈ فنچی اور US Assistant Attorney G. Michael Morgan کے دستخط موجود ہیں۔
امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے ایف بی آئی نے کنگ چیتا کی شکار پانچ بچیوں کی شناخت کی۔ جج نے ملزم کو سزا سنانے کے لیے 8 مئی 2023 کی تاریخ مقرر کی ہے۔ دریں اثناء جج نے پروبیشن آفیسر کو ہدایت کی ہے کہ وہ مدعا علیہ کی سوانح عمری، اس کے خاندانی حالات، طرز زندگی اور رویے وغیرہ کی تفصیلات کے ساتھ رپورٹ فراہم کرے۔
س پلی بارگین معاہدے کے تحت، امریکی اٹارنی کے دفتر اور مدعا علیہ نے زیادہ سے زیادہ 32 سال قید اور 205,100 ڈالر جرمانے پر اتفاق کیا ہے۔ اگر مدعا علیہ واجب الادا جرمانہ ادا کرنے میں ناکام رہا تو اسے سود کے ساتھ ادا کرنا ہوگا۔ تاہم اس معاہدے کے مطابق اسے سزا دینا عدالت پر پابند نہیں ہے۔ عدالت سزا کو کم یا بڑھا سکتی ہے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ عدالت ملزم کے تمام اثاثے ضبط کر سکتی ہے۔
جرم قبول کرنے سے، مدعا علیہ کو عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ عدالت اسے ملک بدر کر سکتی ہے اور اس کی نیچرلائزیشن یا امیگریشن کی حیثیت کو ختم کر سکتی ہے۔ رانا متاثرین کو حرجانہ دینے کا بھی پابند ہوگا جس پر اس نے اتفاق
کیا ہے۔ حرجانے کی رقم کا تعین عدالت خود کرے گی۔
رانا نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ اسکے اعتراف جرم کے بعد اسے مجرم کا درجہ دیا جائے گا اور اس کی ہائش، تعلیم اور ملازمت کی جگہ پر اسے جنسی مجرم کے طور پر رجسٹر کیا جائے گا۔ اگر لقمان رانا نے اعتراف جرم نہ کیاہوتا تو عدالت انہیں 160 سال قید کی سزا سن سکتی تھی۔
تفصیلات کے مطابق، رانا نے میری لینڈ، اوکلاہوما، وسکونسن، واشنگٹن اور نیویارک میں رہنے والی کم از کم پانچ نابالغ لڑکیوں کو ”چائلڈ پورنوگرافی تیار کرنے کے مقصد سے جنسی طور پر مختلف حرکات میں ملوث ہونے کے لیے اکسایا اور مجبور کیا اور متاثرین کو دھمکیاں دیں۔ ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا۔”
ملزم جماعت احمدیہ کے کینیڈا ہیڈکوارٹر پیس ولیج کا رہائشی تھا۔ یہ مبینہ جرائم جون 2014 اور جون 2016 کے درمیان ہوئے، جب لقمان رانا کینیڈا میں واقع جماعت احمددیہ کے مدرسے جامعہ احمدیہ میں میں احمدی مشنری بننے کے لیے اپنے سات سالہ شاہد پروگرام کے آخری سال میں تھا۔
جامعہ احمدیہ کینیڈا کے نیوز لیٹر دی ویسٹرن ہورائزن کے جون-جولائی 2015 کے شمارے کے صفحہ 9 اور 10 کے مطابق، جس کی کاپی ریلجن آبزرور کے پاس دستیاب ہے، رانا نے 2015 میں چھ دیگرساتھی طلباء کے ساتھ بطور مشنری گریجویشن کیا۔ میگزین کے اس شمارے کی یہ کاپی جامعہ احمدیہ کی ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی جب سے رانا کا معاملہ میڈیا کی توجہ حاصل کرنا شروع ہوا۔
کینیڈا میں رانا کی گرفتاری اور اس کی امریکہ حوالگی امریکی اور کینیڈین قانون نافظ کرنے والے اداروں کی باہمی کاوش سے ممکن ہوئی۔ یہ تفتیش ایف بی آئی اور ٹورنٹو پولیس سروسز نے مشترکہ طور پر کی تھی۔
ٹورنٹو پولیس نے 24 مارچ 2017 کو اوٹاوا میں نیشنل چائلڈ ایکسپلوٹیشن کوآرڈینیشن سینٹر سے اطلاع ملنے پر رانا کو گرفتار کیا تھا۔ اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا لیکن بعد میں جنوری 2022 میں گرفتار کر لیا گیا جب اس سلسلے کا ایک اور کیس سامنے آیا۔ تب سے وہ امریکہ میں زیر حراست ہے۔

Share

رانا تنویر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *