مسیحی تنظیم کا جماعت احمدیہ کی اعلیٰ قیادت کے خلاف توہین مذہب کا الزام
گذشتہ روز مسیحی حقوق کی ایک تنظیم نے جماعت احمدیہ کے مرکزی رہنما مرزا مسرور احمد کے خلاف مبینہ طور پر حضرت عیسیٰ کے خلاف ’توہین آمیز‘ کلمات کہنے پر توہین مذہب کے مقدمے کے اندراج کے لیے ایف آئی اے حکام کو درخواست دے دی۔
پاکستان کے متنازعہ توہین رسالت و توہین مذہب کے قانون کو اکثر مذہبی اقلیتوں کے خلاف ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ ایک انوکھا معاملہ ہے جہاں دونوں مظلوم اقلیتیں آمنے سامنے ہیں۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) لاہور کے ایک افسر نےReligion Observer کو تصدیق کی کہ انہیں ایک درخواست موصول ہوئی ہے اور وہ اس پر قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔
اگر یہ مقدمہ درج ہو بھی جائے تو مسرور احمد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ وہ بھی اپنے پیشروؤں کی طرح 2003 میں جماعت کے سربراہ منتخب ہونے کے بعد سے برطانیہ میں مقیم ہیں کیونکہ پاکستان میں رہ کر وہ اپنی مذہبی جماعت کی راہنمائی نہیں کر سکتے کیونکہ اسے پاکستان کی پارلیمینٹ نے جرم قرار دیا ہوا ہے۔
شکایت کنندہ اسلم پرویز سہوترا نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ وہ لاہور میں قائم مسیحیوں کی انسانی حقوق کی تنظیم مسیحا ملت پارٹی کے رہنما ہیں۔ انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر کہا کہ انہیں مرزا مسرور کی ایک ویڈیو ریکارڈنگ ملی ہے جس میں عیسیٰ مسیح کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے گئے ہیں اور مسیح کے دبارہ آنے کے عیسائیوں کے مرکزی نظریے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا کرکے ملزم نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسرور اور اس کے تمام پیروکاروں کے خلاف جو پاکستان میں اس کی ویڈیو کی ریکارڈنگ کرنے اور اسے وسیع پیمانے پر پھیلانے میں ملوث ہیں ان کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہیے اور انہیں عبرتناک سزا دی جانی چاہیے۔ ثبوت کے طور پر سہوترا نے درخواست کے ساتھ اس ویڈیو ریکارڈنگ کی ایک کاپی ایف آئی اے حکام کے حوالے کی ہے۔
چونکہ پاکستانی معاشرہ مذہبی پاپولسٹ سیاست کی وجہ سے زیادہ قدامت پسند ہو رہا ہے، مذہب کا سخت گیر ورژن عوامی زندگی میں زیادہ عام اور اثر انداز ہو رہا ہے۔ چند روز قبل پاکستان کی پارلیمنٹ نے توہین رسالت کے قانون کو مزید سخت کر دیاہے۔
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کر دیا گیا تھا۔ سابق وزرائے اعظم عمران خان اور نواز شریف پر انہی وجوہات کی بنیاد پر حملے کیے گئے۔ کچھ سیاست دان ایک دوسرے پر توہین مذہب کے الزامات لگاتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے خلاف مذہبی جنونیت کو ہوا دے کر اپنی سیاست کی راہ ہموار کی جائے جس کے اثرات عوامی زندگی پر نمایاں ہو رہے ہیں۔