جماعت احمدیہ میں بچوں سے جنسی زیادتی کے مزید واقعات سامنے آئے ہیں – اس بار کینیڈا سے
جماعت احمدیہ کی MeToo موومنٹ تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ بچپن میں جنسی ذیادتی کا شکار ہونے کے دو مذید واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔
جماعت احمدیہ ایک عالمی مذہبی تحریک ہے جو درجہ بندی اور رازداری کے مختلف پرتوں کے تحت اپنے اندرونی معاملات کو منظر عام پر آنے سے آسانی سے روک لیتی ہے۔
بچپن میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے کے دو واقعات ایک احمدی خاتون کی طرف سے سامنے آئے ہیں جس نے اپنی اور اپنی ایک خاتون احمدی دوست کی کینیڈا میں اپنی کمیونٹی کے دو سرکردہ رہنماؤں کے ہاتھوں مبینہ طور پر شکار ہونے کا انکشاف کیا۔ وہ معاملے کو کینیڈین پولیس تک لیجانا چاہتی ہیں اور اس سلسلے میں تصدیقی ثبوت جمع کر رہے ہیں۔
AhmadiMeToo کا آغاز جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ کی پوتی اور چوتھے خلیفہ کی نواسی ندا النصر نے گزشتہ پرس نومبر میں کیا۔۔ اسنے اپنے والد اور عالمی رہنما کے قریبی خاندان کے افراد کی جانب سے مبینہ طور پر جنسی استحصال کے الزامات لگائے جو لندن میٹروپولیٹن پولیس کے زیر تفتیش ہیں۔ اس کے بعد سے اب تک مختلف ممالک میں جماعت کی جانب سے جنسی زیادتی کے متعدد واقعات منظر عام پر آچکے ہیں۔ دو دیگر مقدمات امریکہ کی دو مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
حالیہ سامنے آنے والی جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی جس کی عمر اب پچیس سال ہے کاکہنا ہے کہ ملزم نے 2004میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
اس نے کہا، ”مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے اس کے لیے پہلے سے تیار کرتا رہا تھا کہ مجھے وہ خود اور کینیڈا کی جماعت میں اس کا ایک اور دوست اس کام کے لیے استعمال کر سکیں۔ اس کا کہنا ہے وہ اس نتیجے پراس طرح پہنچی جب وہ بیت الاسلام مشن ہاؤس کے سامنے پارک میں کھیلتے ہوئے مجھے پرکشش انداز میں دیکھتا اور کہتا کہ ”تو آپ ___________ صاحبہ ہیں، اس نے (اس کے مبینہ زیادتی کرنے والے) نے مجھے آپ کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے۔
اس کا کہنا ہے اس کی ایک اور احمدی دوست نے اس وقت اسے بتایا کہ یہ دونوں اسے بھی متعدد بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ اس کا کہا ہے کہ وہ یہ معاملہ کینیڈا کی عدالت میں لیجانا چاہتی ہیں جس کے لیے فی الحال ان دونوں کے خلاف ثبوت اکٹھے کر رہی ہیں جو ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے متعلقہ حکام کو فراہم کریں گے۔
واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ پیس ولیج میں ہوا، جو کہ احمدیوں کی ایک رہائشی کالونی ہے جو ان کے مذہبی کینیڈا کے ہیڈکوارٹر سے ملحق ہے، جہاں وہ بھی رہ رہے تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ 2004 میں پیس ولیج کی طاہر اسٹریٹ میں رہ رہے تھے جب بدسلوکی شروع ہوئی اور 2006 تک جاری رہی جب اس کا خاندان اس علاقے کو چھوڑ کر چلا گیا۔
اپنی سہیلی کے جنسی استحصال کے بارے میں تفصیلات لکھتے ہوئے، اس نے کہا کہ اس کے ساتھ بار بار بدسلوکی کی گئی اور پہلا واقعہ پیس ولیج میں 2008 میں پیش آیا جب کمیونٹی کی عالمی سربراہ کینیڈا کے دورے پر تھی۔
اس کہانی کو بتانے کا مقصد جماعت کو بدنام کرنا یا ہر احمدی عہدے دار کو جنسی درندہ ثابت کرنا مقصد نہیں ہے۔ اس نے کہا اس کا مقصد بیداری پیدا کرنا ہے تاکہ اس طرح کے واقعات کا جماعت کے اندر تدارک کیا جا سکے۔اس کا کہنا ہے کہ اس طرح کی چیزیں جماعت میں ہوتی ہیں اور جماعت ایسے زہریلے کلچر کو فروغ دیتی ہے جہاں ایک عہدیدار کی ساکھ پر سوال اٹھانا خلیفہ کی بے عزتی کے مترادف سمجھا جاتا ہے جو غلط ہے اور ان ملزمان کی حوصلہ افزاہی کرتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ امید کرتی ہیں کہ جماعت کے عہدیداروں کا انتخاب کرتے وقت ان سب کا صحیح طریقے سے جائزہ لیا جائے کیونکہ ان میں سے سبھی کو کسی نہ کسی شکل میں بچوں تک رسائی حاصل ہے۔
اسنے کہا کہ کہ اگرملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تو جماعت ایک ایسی نظیر قائم کرنے میں مدد کر سکتی ہے کہ اس طرح کی زیادتیوں کے متاثرین کو یقین ہو کہ ان کی آواز سماجی بے دخلی یا بائیکاٹ کے بغیر سنی جائے گی۔
اس نے جماعت کے اندر جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے دیگر گمنام لوگوں سے امیدظاہر کی اس کی کہانی کو پڑھ کر ان کو بھی سامنے آنے کا حوصلہ ملے گا، وہ ہمت کریں اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کریں۔