“احمدیہ سیکس سکینڈل:”میں ربوہ میں متعدد بار جنسی حوس کا شکار بنا
حالیہ مبینہ احمدیہ جنسی زیادتی کیس اوراس سلسلے میں جماعت احمدیہ کی قیادت پراٹھنے والے سوالات نے مجھے اپنے آبائی شہر، ربوہ، پاکستان میں جنسی زیادتی کے اپنے تجربات اور مشاہدات کی یاد دلا دی ہے۔ ربوہ میں اپنے بچپن میں کئی مواقع پر میں جنسی استحصال سے گزرا ہوں۔ میں ان پریشان کن یادوں کے ساتھ 40 سالوں سے جی رہا ہوں۔ ان تجربات کو بانٹنے کا واحد مقصد عام لوگوں اور ان حکام میں بیداری پیدا کرنا ہے جنہوں نے جماعت احمدیہ کے اندر ایک ایسا ماحول بنایا ہے جو اس طرح کے بدسلوکی کو استثنیٰ کے ساتھ پھلنے پھولنے میں مدد دیتا ہے۔ مزید برآں، میں ان وجوہات پر بات کرنا چاہوں گا جو ربوہ میں بچوں کے جنسی استحصال میں معاون ہیں۔
میں صرف چار سال کا تھا جب میں اپنے ایک پڑوسی کے گھر قرآن پاک کی ابتدائی تعلیم لینے جاتا تھا۔ ان کا بیٹا جو شاید مجھ سے 10 سال بڑا تھا وہ بد نیتی سے میرے جنسی اعضاء کو قابل اعتراض طرز سے چھوتا۔ میں نے اپنے کسی بزرگ کو اس بارے میں کبھی نہیں بتایا۔وقت کی دھند کے ساتھ میرے لیے یہ یاد رکھنا مشکل ہے کہ اس وقت میرے ذہن میں کیا گزر رہا تھا۔
یہ دوبارہ ہوا جب میں 7 سال کا تھا۔ اس بار، یہ میرے اپنے گھر میں ہوا، ایک ایسی جگہ جہاں میں نے سوچا کہ میں محفوظ ہوں۔ مجرم میرا کزن تھا جو مجھ سے 15 سال بڑا تھا۔ مجھے میرے والدین نے اس رات اس کے ساتھ ایک بستر پر سونے کا کہا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ واحد موقع نہیں تھا جب مجھے اپنے سے بڑے مرد رشتہ دار کے ساتھ سونے کے لیے کہا گیا تھا۔ یہ چند مہینوں کے بعد دوبارہ ہوا۔ میرے والدین کو کبھی بھی کسی چیز پر شک نہیں ہوا اور میں نے کبھی بھی انہیں یا کسی اور کو اس کے بارے میں بتانے کی ہمت نہیں کی۔
اپنے خاندان کے علاوہ، میں نے بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو جماعت میں عہدوں پر برا جمان ہیں مگر چھوٹے بچوں کی حفاظت سے غافل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مسئلہ انفرادی نہیں بلکلہ سماجی ہے۔
جماعت احمدیہ ایک درجہ بندی کی تنظیم ہے جس کا ایک سربراہ ہے جسے ہر احمدی معصوم اور بے قصور سمجھتا ہے۔ جماعت اس سربراہ کی مکمل اطاعت کے کلچر کو فروغ دیتی ہے۔ اس کی وفاداری ہر بچے کے دماغ میں والدین اورجماعت کے علماء اور دیگر دانشور مذہبی پروگراموں کے ذریعے ڈالتے رہتے ہیں۔جماعت احمدیہ کا نظریہ واضح طور پر کہتا ہے کہ ہر عہدہ داراحمدی خلیفہ کا معزز نمائندہ ہے۔ اس لیے ہر عہدے دار کے اختیار کی تعمیل کو خود خلیفہ کی بیعت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو جماعت کے ذمہ داروں کے سپرد کرتے ہیں جو شہر کے مختلف محلوں میں بہت سے مذہبی، تعلیمی اور کھیلوں کے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ میں جماعت کے تمام عہدیداروں کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا لیکن ان میں سے کچھ ایسے ہی لونڈے باز ہوتے ہیں جیسے دوسرے معاشروں میں ہوتے ہے۔ تاہم، دیگر معاشروں کے برعکس،جماعت احمدیہ میں جنسی زیادتی کو روکنے کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں ہیں، کمزور بچے ان عہدے داروں کی جنسی حوس کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔ ربوہ میں اپنے قیام کے دوران، میں نے جماعت کے رہنماؤں اور نابالغوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بہت سے کیسز خود دیکھے۔
جماعت کا درجہ بندی کلچر بچوں کو پابند بناتا ہے کہ وہ جماعت کے عہدیداروں کی مکمل اطاعت کریں۔ معقول حد تک احترام کرنا خدمت گزار ہونے سے بہت مختلف ہے۔اطاعت کا یہ طریقہ بچوں کی شخصیت کو مکمل طور پر کمزور کر دیتا ہے اور ان میں خود اعتمادی ختم کر دیتا ہے۔ یہی کلچر تھا جس نے ان حوس پرستوں کی حوصلہ افزائی کی اور مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ تمام مواقع پر میں اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کی مزاحمت کرنے سے قاصر تھا کیونکہ مجھے تو ان بڑوں کی اطاعت کرنی تھی۔
دوسرے قدامت پسند معاشروں کی طرح جماعت احمدیہ میں بھی جنسی تعلق پر بحث کرنا ممنوع ہے، لہذ اس موضوع پر بالکل کوئی تعلیم فراہم نہیں کی جاتی ہے۔ نہ ہی والدین اور نہ ہی بچے ان احتیاطی تدابیر سے واقف ہیں جو انہیں بالغ اور بچے کے رابطے کے سلسلے میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر بچوں کو ان کی جنسیت اور حفاظت کے بارے میں سب کچھ سیکھنے کے لیے خودپر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ربوہ میں بہت سے پرائیویٹ سکول ہیں جوجماعت احمدیہ چلا رہی ہے۔ ان کے نصاب میں بچے کی جنسی حفاظت اور تربیت سے متعلق کوئی مواد نہیں ملتا۔ مزید یہ کہ میں نے جماعت احمدیہ کی مذہبی تعلیمی تقریبات میں چالیس سال سے زائد عرصے سے شرکت کی ہے لیکن میں نے ان کے پروگراموں میں جنسی استحصال سے متعلق کوئی مواد نہیں دیکھا۔ بچوں کو ‘گڈ ٹچ’ اور ‘بیڈ ٹچ’ کا ایک بہت آسان لیکن انتہائی اہم سبق بھی نہیں دیا گیا ہے۔ صرف بچے ہی نہیں بلکہ اکثر والدین بھی اپنے بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے بارے میں لاعلم ہیں۔ دو مواقع پر جن کا میں نے اوپر ذکر کیا، مجھے میرے والدین نے مجھ سے 10 سے 15 سال بڑے کے ساتھ بستر پر رکھا۔ میرے والدین نے ان راتوں کے لیے جن میں مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، مجھے ان خاندانی مہمانوں کی تحویل میں دینے سے پہلے کبھی اس حدشہ کے متعلق سوچا بھی نہیں ہوگا۔ یہ صرف میری کہانی نہیں ہے بلکہ بچوں کو مہمانوں کے ساتھ بستر پر سلانے کا یہ رواج وہاں بہت عام ہے۔
احمدیہ قیادت کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا میں واحدمزہب ہیں جو صحیح راستے پر ہے۔ اس کے پیروکار بھی اس پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیشہ جماعت احمدیہ کے ساتھ اپنی وابستگی کی تعریف کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کسی بھی کوتاہی جیسے کہ بچوں کے جنسی استحصال کو قیادت کے ساتھ ساتھ پیروکار بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ چھوٹے معصوم بچے اپنی تنظیم کی بناوٹی عزت کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ وہ جنسی زیادتی کے ہر معاملے کو چھپاتے اور متاثرین کو خاموش کرتے رہتے ہیں۔ کمیونٹی کی قیادت اس برے عمل کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتی۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس مسئلے کو تسلیم کرنے اور اسے حل کرنے سے ان کی ساکھ کو تقویت ملے گی اور وقارمیں اضافہ ہوگا۔
اگرچہ میں اپنی کمیونٹی میں بچوں کے جنسی استحصال کے پیچھے صرف چند عوامل پر بات کر سکتا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حقیقی ہے اور یہ ہمارے آس پاس ہے۔ یہ شاید ہمارے گھر یا گھر کے ساتھ رہنے والے خاندان میں ہو رہا ہے۔ ہماری کمیونٹی میں اس انتہائی سنگین مسئلے پر غور کرنے اور چھوٹے بچوں کی بہتری کے لیے اسے حل کرنے کے لیے ہمت کی ضرورت ہے۔ تاہم، چونکہ جماعت میں لفظ ‘سیکس’ کو حد سے زیادہ بدنام کیا گیا ہے، اس لیے لوگ ان نتائج سے بہت خوفزدہ ہیں جن کا انہیں سڑک پر سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے وہ خاموش رہنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کو تعلیم دینے اور حکام کو جوابدہ ٹھہرانے اور ہر تنظیمی سطح پر بچوں کی حفاظت اور سلامتی کی پالیسی کو اپنانے کے لیے اب عمل کرنا چاہیے۔ بچوں کی صحت مند خود اعتمادی کو یقینی بنانے کے لیے جو ان کے دماغی نشوونما کے لیے ضروری ہے، ہمیں ہر ایک کو بیدار کرنا چاہیے۔ ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور معصوم چہروں کی ایک جھلک دیکھیں اور اس درد کو محسوس کریں جس سے ان کا جسم اور روح دونوں گزرے ہوں گے!
آ کاش عاشر کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم ہیں۔مزہبی طور پر ان کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔ وہ ایک سماجی کارکن ہیں اور جنسی حراسانی کا شکار ہیں۔
بشکریہ : انڈس سکرول